Monday, 26 March 2012

را کے کسی افسر سے کبھی ملاقات نہیں کی: یاسین ملک


خود مختار کشمیر کی حامی تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ یعنی جے کے ایل ایف کے سربراہ محمد یاسین ملک نے متنازع میمو کی تحقیقات کرنے والے پاکستان کے عدالتی کمیشن کے سامنے اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی سیاسی زندگی میں کبھی بھی ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ’ریسرچ اینڈ انالیئسز ونگ‘ یعنی را کے سابق سربراہ سے نہیں ملے۔
یاسین ملک
جے کے ایل ایف کے سربراہ یاسین ملک نے کمشین کے روبرو بیان دیتے ہوئے کہا ’میں نے اپنی تیس سالہ سیاسی زندگی میں کبھی بھی را کے کسی بھی چھوٹے، بڑے یا درمیانے درجے کے افسر کے ساتھ ملاقات نہیں کی۔انہوں نے کہا کہ’اگر یہ ثابت ہو جائے تو میں سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لوں گ
بیان قلمبند کراتے ہوئے یاسین ملک نے کہا کہ ان کی آج تک متنازع میمو کے متنازع کردار امریکی شہری منصور اعجاز سے دو مرتبہ ملاقات ہوئی ہے۔
لیکن ان کے بقول منصور اعجاز نے خود کبھی بھی انھیں را کے سربراہ سے ملاقات کرنے کے لیے نہیں کہا۔
کشمیری رہنما یاسین ملک نے کہا کہ منصور اعجاز سے ان کی پہلی ملاقات نومبر 2000 میں ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے زیر اہتمام کشمیر کے معاملے پر ایک سیمنار میں ہوئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس سیمنار کے منتظیمن کے علاوہ خود منصور اعجاز نے بھی اپنے آپ کو اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کے خصوصی ایلچی کے طور پر متعارف کرایا۔
جے کے ایل ایف کے رہنما نے کہا کہ منصور اعجاز نے سمینار میں اپنی تقریر میں مسلمانوں کے بارے میں متنازع بیان دیا جس کی وجہ سے ان کی منصور اعجاز کے ساتھ تلخی بھی ہوئی۔
یاسین ملک نے کہا کہ اس واقعہ کے بعد منصور اعجاز نے معذرت کی اور انہیں اگلے دن دوپہر کے کھانے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کی تھی۔

یاسین ملک نے کہا کہ دوپہر کے کھانے کے لیے وہ اکیلے دہلی میں واقع اس ہوٹل کے کمرے میں گئے جہاں منصور اعجاز ٹھہرے ہوئے تھے۔
کشمیری رہنما نے کہا کہ کچھ دیر بعد ایک اور شخص منصور اعجاز کے کمرے میں آیا جس کا تعارف منصور اعجاز نے اپنی ہندوستانی بزنس مین دوست کے طور پر کرایا۔
کشمیری رہنما نے کہا کہ اس شخص نے پہلے ان کی اور کشمیریوں کی جدوجہد کی تعریف کی اور پھر اس شخص نے کہا ’کیا آپ را کے سربراہ اے ایس دلت سے ملاقات کرسکتے ہیں؟‘
ملک نے کہا کہ وہ شخص کچھ دیر اصرار کرتے رہے کہ میں را کے سربراہ سے ملاقات کروں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہیں شبہ ہوا کہ یہ بزنس مین نہیں ہوسکتا کیوں کہ بزنس مین ایسی بات نہیں کہہ سکتا بلکہ یہ خفیہ ادارے کا کوئی اہلکار ہوسکتا ہے۔
یاسین ملک نے کہا کہ انہوں نے را کے سربراہ سے ملاقات کرنے سے انکار کیا اور دوپہر کا کھانا کھائے بغیر وہاں سے چلے آئے۔
ملک نے کہا کہ مارچ سنہ 2001 وہ اپنے علاج کے لیے امریکہ گئے جہاں ان کی ملاقات امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں سے ہوئی۔
ملک نے کہا کہ انہوں نے امریکی اہلکاروں سے دریافت کیا کہ آیا منصور اعجاز امریکی صدر بل کلنٹن کے خصوصی ایلچی مقرر ہوئے ہیں تو انہوں نے اس کی تردید کی۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد وہ اپنے تین اور ساتھیوں کے ہمراہ نیویارک کے علاقے منہیٹن میں واقع منصور اعجاز کے فلیٹ پر انہیں یہ کہنے گئے کہ انہوں نے غلط بیانی کی تھی کہ وہ امریکی صدر کے خصوصی ایلچی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ منصور اعجاز خاموشی سے ان کی بات سنتے رہے جس کے بعد وہ اور ان کے ساتھی وہاں سے چلے آئے۔
اسی دورے کے دوران یاسین ملک امریکہ سے لندن بھی گئے تھے جہاں قیام کے دوران ان کے بقول انہیں فرانس سے ایک شخص نے کئی بار موبائل سے ٹیلی فون کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹیلی فون کرنے والے شخص نے اپنا تعارف وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے سیکریڑی کے طور پر کرایا اور کہا کہ بی بی دو دن بعد لندن آرہی ہیں اور آپ سے ملنا چاہتی ہیں۔
لیکن عدالتی کمیشن نے انہیں یہ کہہ کر روک دیا کہ پہلے وہ ان کیمرہ اس کی تفصیلات سنیں گے جس کے بعد اس کی تفصیلات بتانے یا نہ بتانے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
یاسین ملک نے کمیشن سے استدعا کی کہ اس کا پاکستان کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں بلکہ اس کا تعلق متنازع میمو کے متنازع کردار منصور اعجاز سے ہے لیکن کمیشن نے یاسین ملک کے اس درخواست کو مسترد کیا۔
ان کیمرہ تفصیلات سننے کے بعد ڈپٹی اٹارنی جنرل کے اعتراض پر کمیشن کے سربراہ بلوچستان کے چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے یاسین ملک کو اس واقعہ کی تفصیلات بتانے کی اجازت نہیں دی۔
جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک کمیشن کے سامنے اپنا بیان قلمبند کرانے کے لیے سنیچر کو سرینگر سے اسلام آباد پہنچے تھے۔
واضح رہے کہ متنازع میمو کے مرکزی کردار منصور اعجاز نے کمیشن کے سامنے اپنے بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے کشمیری رہنما یاسین ملک اور بھارت کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کے درمیان ملاقات کرائی تھی۔
اس بیان کے بعد یاسین ملک نے پاکستان کی سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی کہ انہیں بھی اس مقدمے میں پارٹی بنایا جائے جو عدالتی کمیشن نے قبول کی تھی۔

No comments:

Post a Comment